We are all becoming robots... and we don't even know it!
ہم سب روبوٹس بن رہے ہیں... اور ہمیں خبر ہی نہیں
Just close your eyes, and imagine yourself in a world where every human being knows only arithmetic, demands "proof" for everything, where every emotion needs a "logical explanation", and every creation is buried as "unnecessary".
ذرا آنکھ بند کریں، اور خود کو ایک ایسی دنیا میں تصور کریں، جہاں ہر انسان صرف حساب کتاب جانتا ہو، ہر بات کا "ثبوت" مانگتا ہو، جہاں ہر جذبہ ایک "منطقی وضاحت" کا محتاج ہو، اور ہر تخلیق کو "غیرضروری" قرار دے کر دفن کر دیا جاتا ہو۔
![]() |
Are We Turning Into Robots The Death of Human Creativity |
This is not fiction — this is our world!
یہ کوئی فکشن نہیں — یہی ہماری دنیا ہے
The human mind is a combination of two worlds: one of calculation, logic, formulas and rules; and the other of freedom, imagination, dreams and spontaneous love.
انسانی دماغ دو دنیاؤں کا مجموعہ ہے: ایک دنیا حساب کتاب، منطق، فارمولوں اور اصولوں کی؛ اور دوسری دنیا آزادی، تخیل، خواب، اور بے ساختہ محبت کی۔
The first world is called the left brain — the one we are taught in schools, the one that looks for the “right answer,” the one that teaches us within the coloring lines, the one that says:
“Don’t create, repeat!”
پہلی دنیا کو بایاں دماغ کہتے ہیں — وہی جو ہمیں اسکولوں میں سکھایا جاتا ہے، جو "درست جواب" ڈھونڈتا ہے، جو ہمیں کلرنگ لائنز کے اندر سکھاتا ہے، جو کہتا ہے:
"تخلیق مت کرو، دہراو!"
"Don't ask questions, believe me!"
"Art? It's a waste of time!"
While the right brain...?
"سوال مت اٹھاو، مانو!"
"آرٹ؟ وقت کا زیاں ہے!"
جبکہ دایاں دماغ…؟
It is the tree of childhood on which the birds sing, the story we wanted to hear before going to bed, the color we once scattered in the sky.
This is the part where dreams are born, and where the true spirit of love, art, music, fiction, and the arts resides.
وہ تو بچپن کا وہ درخت ہے جس پر پرندے گاتے ہیں، وہ کہانی ہے جو ہم سونے سے پہلے سننا چاہتے تھے، وہ رنگ ہے جو ہم نے کبھی آسمان پر بکھیرے تھے۔
یہی وہ حصہ ہے جہاں خواب جنم لیتے ہیں، اور جہاں محبت، آرٹ، موسیقی، فکشن، اور فنون لطیفہ کی اصل روح آباد ہے۔
But alas…
In the name of education, we have imprisoned this right brain of children — declaring it “unreal”, making it silent by calling it “useless”.
لیکن افسوس…
ہم نے تعلیم کے نام پر بچوں کے اس دائیں دماغ کو قید کر دیا — اسے "غیرحقیقی" قرار دے کر، اسے "بیکار" کہہ کر خاموش کروا دیا۔
We made children robots, taught them to erase files, took away their dreams in the name of discipline.
Their imagination, their independent mind — all handed over to the command of the left brain.
The result?
ہم نے بچوں کو روبوٹس بنایا، فائلیں رٹوانا سکھایا، ڈسپلن کے نام پر ان کے خواب چھین لیے۔
ان کا تخیل، ان کا آزاد ذہن — سب بائیں دماغ کے حکم پر سونپ دیا۔
نتیجہ؟
Today we live among a generation that does not understand love, but knows how to make a business plan.
آج ہم ایک ایسی نسل کے درمیان زندہ ہیں جو محبت نہیں سمجھتی، لیکن بزنس پلان بنانا جانتی ہے۔
Who does not write poetry, but keeps a full expense sheet.
Who does not feel beauty, only weighs property.
جو شاعری نہیں لکھتی، لیکن ایکسپینس شیٹ مکمل رکھتی ہے۔
جو حسن کو محسوس نہیں کرتی، بس جائیداد کو تولتی ہے۔
Today, man is no longer a man… he has become a “project”.
Life is a race… and the right brain has fallen behind in this race — lonely, silent, and forgotten.
آج انسان، انسان نہیں رہا… وہ ایک "پراجیکٹ" بن چکا ہے۔
زندگی، ایک دوڑ ہے… اور دایاں دماغ اس دوڑ میں کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے — تنہا، خاموش، اور بھولا ہوا۔
When will our right brain wake up?
When will we create again?
When will we learn to feel instead of win again?
کب جاگے گا ہمارا دایاں دماغ؟
کب ہم پھر سے تخلیق کریں گے؟
کب ہم پھر سے جیتنے کے بجائے محسوس کرنا سیکھیں گے؟
Maybe… when we let children ask questions, when we allow a little madness with discipline — then humans will go and become human… otherwise we are all programmed machines — the same, colorless, and soulless!
شاید… جب ہم بچوں کو سوال پوچھنے دیں گے، جب ہم نظم و ضبط کے ساتھ تھوڑی سی پاگل پن کی بھی اجازت دیں گے — تب جا کر انسان، انسان بنے گا… ورنہ ہم سب پروگرامڈ مشینیں ہیں — ایک جیسے، بے رنگ، اور بے روح!
🌍 تضاد کی خوبصورت ترتیب:
بایاں دماغ اور دایاں دماغ — منطق بمقابلہ تخیل، حساب کتاب بمقابلہ جذبات، اسکول بمقابلہ فطرت — یہ تضاد صرف بیان نہیں ہوا بلکہ محسوس کروایا گیا ہے۔
🎨 زبان کی جمالیات:
-
"وہ کہانی ہے جو ہم سونے سے پہلے سننا چاہتے تھے"
-
"زندگی ایک دوڑ ہے… اور دایاں دماغ اس دوڑ میں کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے"
یہ سطور شاعر کی سی لطافت اور ادیب کی سی دانائی لیے ہوئے ہیں۔
💔 سماجی نظام پر تنقید:
تعلیم، ڈسپلن، کارپوریٹ دنیا — ان سب پر گہری اور دل کو چُھونے والی تنقید ہے، جو ایک درد مند انسان ہی کر سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے: کیا کیا جائے؟
تحریر ہمیں رُلاتی ہے، جھنجھوڑتی ہے — لیکن یہیں رُکنا کافی نہیں۔ اس کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟
-
نصاب میں فنون لطیفہ کی جگہ بنائی جائے۔
-
بچوں کو صرف "درست جواب" نہیں، "نئے سوال" سوچنے دیے جائیں۔
-
"ناکامی" کو تخلیق کا ایک حصہ مانا جائے، نہ کہ جرم۔
-
والدین اور اساتذہ خود اپنی تخلیقی فطرت کو دوبارہ دریافت کریں۔
0 Comments